مقصد و نصب العین

شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا - پردم ہے اگر تُو، تو نہیں خطرہ پرواز

علامہ اقبال

پچھلے چالیس سالہ دورکے تجربات اور محددود علم کی روشنی میں جو کچھ میں نے سیکھا اور سمجھا ہے، اسے حتی الامکان ان لوگوں تک پہنچانا جو شخصی ترقی و کامیابی کے متلاشی ہیں، جو اپنی زندگی بدلنا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔

 تعلیم کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں، لیکن شخصی ترقی و کامیابی کا تعلق ڈگریوں یا تعلیمی قابلیت سے ںہیں، بلکہ اسکا دارومدار زیادہ تر تربیت اور کوچنگ پر ہے۔ اسکا دار و مدار ہمارے اعمال پر ہے، ہمارے  اخلاق وکردار، ایمان و یقیں، اور قدر و اقدار پر ہے۔ ایک زمانہ تھا جب کہا جاتا تھا کہ پڑھو گے لکھو گے تو بنو گے نواب، کھیلو گے کودو گے ہو گے خراب، لیکن ہم دیکھتے ہیں کے کئی پڑھے لکھے خراب ہو گئے اور کئی کھیلنے کودنے والے کامیاب۔

کسی بھی قوم کا اثاثہ اسکی افرادی قوت ہوتی ہے، اصل سرمایہ کاری افراد پر کرنی چاہیے، یہ وہ اثاثہ ہے جو کبھی گھٹتا نہیں بلکہ بڑھتا ہی رہتا ہے۔ افراد ترقی کریں گے تو ملک ترقی کرے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں افراد پر جو سرمایہ کاری ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی۔ ہم ابھی تک تعلیمی, تکنیکی اوراخلاقی میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ ہمارے زیادہ تر تعلیمی و تدریسی شعبے تجارتی ادارے بن گئے ہیں، انکے نزدیک پیسہ کمانا زیادہ اہم ہے بہ نسبت اس کام کے جو انہیں کرنا چاہیے، یعنی تعلیم و درس و تدریس۔

خدا نے اجتک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

 ہر شخص جانتا ہے کہ دنیا سمٹتی جارہی ہے، دنیا چھوٹی ہوتی جارہی ہے، ایک گاؤں بنتی جا رہی ہے۔ یہ اتنی تیزی سے بدل رہی ہے کہ اس کے ساتھ چلنا مشکل ہو گیا ہے۔ مقابلہ سخت ہے، اور دن بہ دن سخت ترین ہوتا جا رہا ہے۔ ہم “اطلاعاتی انقلاب” کے دور میں ہیں۔ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونےتک ہر شخص ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ہم نہیں بدلیں گے تو ہمیں بدل دیا جائے گا۔ ہر چیز تبدیل ہو رہی ہے، صرف ایک چیز مستقل ہے اور وہ ہے “تبدیلی”، مستقل تبدیلی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کچھ چیزیں کبھی نہیں بدلتیں وہ ہمیشہ مستقیم رہتی ہیں، اور وہ ہیں قوانیںِ قدرت، قوانیںِ فطرت، جواللہ کے قوانین ہیں۔ ۔اوپر جو شعر لکھا ہے وہ مولانا ظفر علی خان صاحب کا ہے, لیکن اسکی اصل بنیاد اللہ کا قانون ہے۔ اللہ تعالی سورہ رعد آیت نمبر ۱۱ میں فرماتے ہیں: “کسی قوم کی حالت اللہ تعالی نہیں بدلتاجب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے”۔

کچھ چیزیں یقینا مستقل تبدیل ہوتی رہتی ہیں، لیکن کچھ چیزیں یقیناً مستقل قائم رہتی ہیں۔ ( ڈاکڑ جیلانی)

کل تک میں بہت ہوشیار تھا، دنیا بدلنے نکلا تھا، آج میں دانا ہوں، اپنا آپ بدل رہا ہوں۔ مولانا روم

لوگ ترقی یافتہ قوموں کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہوں نے ہماری [ اسلامی]  اخلاقیات، ہماری قدر واقدار اپنا لیں ہیں۔ یہ بات درست نہیں، ان اخلاقیات یا قدر و اقدار کا کسی مذہب سے تعلق نہیں، جو بھی انہیں اپنائے گا وہ لازمی ترقی و کامیابی پائے گا، چاہے وہ فرد واحد ہو یا کوئی قوم۔ اگر ہم واقعی خوشحالی اور ترقی و کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنا زوایہ نگاہ بدلنا ہو گا، اپنی سوچ بدلنا ہوگی اپنی عادات بدلنا ہوں گی، کردار بدلنا ہوگا، اپنے طور طریقے بدلنے ہوں گے۔  ہم قانون قدرت کے مخالف سمت جا رہے ہیں، ہمیں واپس اپنا قبلہ درست کرنا ہو گا۔ ہمیں واپس ان اخلاقیات، قدر و اقدار کی طرف لوٹنا ہو گا جو ترقی و کامیابی کے آفاقی اصول ہیں، قانون قدرت ہیں، اللہ کا قانون ہیں۔

عقلمند وہ نہیں جو سارے سولات کے جوابات جانتا ہو، بلکہ وہ ہے جسے پتہ ہو کہ اسکے سوال کا جواب کہاں ملے گا۔

منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر، مل جائے تحھ کو دریا تو سمندر تلاش کر- علامہ اقبال، شاعرِ مشرق

ترقی و کامیابی منزل نہیں بلکہ ایک جہدِ مسلسل ہے، ایک جیت و ہار کا سلسلہ ہے۔​ ایک جنگ ہے، معرکہ ہے اپنے اور اپنے آپ کے درمیان۔  یہ جنگ اگر انسان کی فلاح و بہبود کے لئے، لوگوں کی جان مال عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے، پیار و محبت امن و آشتی کے لیے لڑی جائے گی تو پھر یہ ترقی و کامیابی کی جنگ کہلائے اور لڑنے والا لازمی فتحیاب ہو گا، اگر نہیں تو پھر یہ بدحالی اور تنزلی کی جنگ ہو گی۔ عزت، دولت، شہرت تو مال غنیمت ہیں جتنی بڑی جنگ جیتں گے اتنا زیادہ مال ہاتھ لگے گا اور  ہاریں گے تو اتنا ہی نقصان ہو گا۔ اور کبھی کبھی انسان جیت کے بھی ہار جاتا ہے، اور کبھی ہار کے جیت۔ 

اس جنگ میں ایک ہی جیتنے والا اور ایک ہی ہارنے والا ہے، اور وہ آپ ہیں، آپ خود۔

آپ سمندر کا ایک قطرہ نہیں، آپ قطرے میں پورا سمندر ہیں۔ شیخ سعدی

میں آپکے لیے کیا کر سکتا ہوں؟ میں تو آپ کے لیے کچھ نہیں کر سکتا، جو کچھ  کرنا ہے آپ نے خود ہی کرنا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ دنیا میں کوَئی شخص کسی کو کچھ نہیں سکھا سکتا جب تک وہ شخص خود سیکھنے پر تیار نہ ہو، کوئی شخص کسی کو نہیں بدل سکتا جب تک وہ خود بدلنے پر تیار نہ ہو۔ میں تو صرف آپ کے سامنے وہ رکھ سکتا ہوں جو کچھ میں نے  اب تک سیکھا اور سمجھا ہے، میں آپکو کچھ طریقے یا نسخے بتا سکتا ہوں، حکمت عملی  اور لائحہ عمل دے سکتا ہوں جو میرے خیال میں اس جنگ کو جیتنے کے لیے ضروری ہیں۔ جنگ کرنا آپکا کام ہے، لیکن یاد رکھیں اس جنگ میں صرف ایک شخص کی جیت و ہار کا فیصلہ ہو گا اور وہ شخص آپ خود ہیں، بعض لوگ جیت کر بھی ہار جاتے ہیں اور بعض ہار کے جیت۔ فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے۔ فیصلہ آپکو ابھی اور اسی وقت کرنا ہے۔ فیصلہ دانشمندی سے کریں۔

کیا آپ سمندر میں قطرہ رہنا چاہتے ہیں، یا آپ قطرے میں سمندر ہونا چاہتے ہیں؟